کچھ بھی تو نہیں بدلا

مسلم دور حکومت ہے ۔۔۔ کلمہ گوحکمران ہیں ۔۔۔سمرقند کی حسین وادی ہے ۔۔ پرفضا مقامات،بے انتہاخوبصورتی ۔۔ تاحدنگاہ پھیلے سبزے۔۔۔جھرنے ۔۔پہاڑ۔۔ حسن ۔۔۔۔ وسائل ۔۔۔۔ نعمتیں ۔۔۔ آسمان رحمتیں برسانے پرآئےتوتھکتا نہیں ۔۔۔ زمین بخشنے پر آئے توسونا اگلے ۔۔تاحدنگاہ پھیلے کھیت ۔۔۔ دہقانوں کی عرق ریزپیشانیاں ۔۔۔۔ مٹی کی خوشبو ۔۔زمین پرفخرسےسر تن کرکھڑی فصلیں۔۔ پہاڑ،میدان  سبھی قدرت کاحسین شاہکار۔۔۔۔خوبصورت عمارتیں  ایسی کہ دنیامیں نظیرنہیں۔۔۔

مگر بدقسمتی ۔۔

عوام کی حالت ناگفتہ بہ۔۔۔۔ گھٹنے گھٹنےجہالت ہے۔۔۔درسگاہیں مفقود۔۔۔تعلیم دور ۔۔مخصوص فنون کےعلاوہ کسی پرتوجہ نہیں ۔۔۔ سائنسی علوم کو چھوڑ کرعمارت سازی اور شاعری پر ہی ساری توجہ ۔۔۔۔۔عوام کی حالت یہ کہ خشک روٹی کےلیے دن بھربیل کی طرح جتے رہتے ۔حکومت کاکام ٹیکس پر ٹیکس کی وصولی۔۔۔ملکی حفاظت کےلیے قائم کردہ فوج کامحبوب مشغلہ بھی لوٹ مار۔۔۔سرکاری احکام بھی نااہل کام چور اور رشوت خور۔۔۔ہرکام کےلیے پیسہ وصولی عام۔۔عوام دہرے عذاب کاشکار۔۔۔۔۔ کوئی دن نہیں جاتا جب کسی نئی جنگ وجدل کاخطرہ سر پر نہ لٹکتا ہو۔۔ جنگ نہ ہو تو حکمران چین کاسانس نہ لینے دیں ۔۔۔۔۔

رعایاکےلیے جبروقہرکی علامت اور زبردستی خوشامدانہ القابات لینے والے حکمرانوں کی یہ حالت کہ دنیابھرکی طن وتشنع کاشکار اور ہنسی ٹھٹھے کاذریعہ ہیں ۔۔

 

صدیاں بیت گئیں

مسلم دور حکومت ہے ۔۔۔کلمہ گو حکمران ہیں ۔۔۔۔ پاک سرزمین ہے۔۔۔۔ چارموسموں کی حامل بستی  ۔۔۔۔سردی ہے ۔۔گرمی ہے ۔۔ خزاں ہے بہار ہے ۔۔۔ کھیت ہیں ہریالی ہے ۔۔۔کارخانےہیں ،پیدوارہے ۔۔۔۔ہنر ہے فن ہے ۔۔  وسائل کا انبار ہے ۔۔۔ پتھر پرکدال چلائیں تو سونا۔۔۔صحرا میں پاؤں رکھیں تو تیل۔۔۔سمندرگیس دینے کو تیار ۔۔۔ غرض کے وسائل بے شمار۔۔ مگر

بدقسمتی۔۔۔

عوام کی حالت یہ ہے کہ خشک روٹی کےلیے بھی جان توڑمحنت کرناپڑتی ہے ۔۔تن ڈھکنے کےلیے من داؤپرلگاناپڑتا ہے ۔۔ غربت ہے جہالت ہے ۔۔پیٹ بھرنے کےلیے دین ودنیاسےبیگانگی ۔۔عزت نفس ہےکہ کوئی بھی مجروح کرکے چل دیتا ہے ۔۔حکام کی نااہلی ایسی کے وسائل کوبھی مسائل بنادیا۔۔۔بےحسی ایسی کی اشرف المخلوقات حقیرترین شے بن گئی۔۔۔

غرض کہ ‘‘پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ’’کو بھی  خودغرضی،لالچ،جھوٹ ،فریب ،مکراوردوغلےپن جیسی لعنتوں سے ناپاک کردیا۔۔۔

حیرت ہے کہ کوئی حکمران اتنابےوقوف اورکوتاہ نظرکیسے ہوسکتا ہے ،،اسے بالکل بھی نہیں ہوناچاہیے ۔۔جب اسے پیٹ بھرکھانا،سرچھپانے کابہترین ٹھکانا اورمعقول آمدن میسرہے تووہ خودکولافانی کیوں نہیں بناجاتا؟؟؟ جب اسے اقتدارحاصل ہے تووہ اسے چھوٹے اورنیچ مقصدکی بجائے اعلی اورارفع مقصدکےحصول کاذریعہ کیوں نہیں بناتا۔۔۔حکمران اپنے بچوں کاسوچنے کی بجائے نسلوں کاکیوں نہیں سوچتے؟

تف ہے ان پر جوحاکم ہوتے ہوئے بھی تاریخ میں زندہ رہنے سے محروم رہ جاتےہیں۔۔حیرت ہے ان پرجوپتھروں کوتورنگ ونورسےنہلاکروسائل کاضیاع کرنےمیں فخرمحسوس کرتےہیں مگر قلوب کوعلم کی دولت سے منوراوردماغ کوروشن کرناگوارہ نہیں کرتے ۔۔ مواصلاتی نظام ،آرائش و زیبائش،نمودونمائش اورعالیشان عمارتوں کی تعمیرسےملک تو شائدترقی یافتہ کہلائے مگر قومیں ترقی نہیں کرتیں ۔۔

فنون کو علوم پرفوقیت دینے والےحکمران اپنی قوموں کی تاریخ کےمجرم کہلاتےہیں ۔۔نااہل حکمرانوں کو سر پرسوارکرنے والے عوام یقینی طورپر اسی سزاکےمستحق ہیں ۔۔فروعی ووقتی اختلافات ،انا اور ہوس کواجتماعی اوردیرپامفادات پرفوقیت دینے والےاپنی رعایا اور ان کی نسلوں کے مجرم ہوتے ہیں۔وقت کے تقاضوں کونہ سمجھنا،نسلوں کے لیے گناہ کبیرہ کی حیثیت رکھتاہے،،ایک فردکی کوتاہ بینی  کاخمیازہ سقوط غرناطہ جیسی صدیوں پرمحیط شرمناک ودردناک شکست کی وجہ بن جاتی ہے ۔۔ جو قوموں کےدامن پردھبہ ہے ۔

صدیاں بیت گئیں مگرکچھ بھی نہیں بدلا۔۔۔ مسائل بھی وہی ہیں اور اسباب بھی وہی ۔۔۔ تاریخ اٹی پڑی ہے غفلتوں،کوتاہیوں ،نااہلیوں اورحرص وہوس  سے پہنچے نقصانات کی داستانوں سے ۔۔۔سینکڑوں حکمران آئے اور گئے ۔۔۔ علماآئے اورگئے۔۔شعراآئے اورگئے۔۔۔دانشورآئے اورگئے ۔۔۔کچھ بھی نہ بدلا۔۔۔۔

بدلنابھی نہیں۔۔ ۔جب تک سوچ نہ بدلی ۔۔۔فنون کی جگہ علوم کی ترویج نے نہ لی تب تک کچھ بھی نہیں بدلے گا ۔۔۔علم کافروغ ہی اصل بدلاؤ ہے ۔۔۔


Leave a comment